Friday, 4 April 2014
حضرت اخواندزادہ مبارک سیف الرحمن پیر ارچی خراسانی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت اخواندزادہ مبارک سیف الرحمن پیر ارچی خراسانی رحمۃ اللہ علیہ
اسم گرامی سیف الرحمان لقب آخوندزادہ، مشہور القابات پیر ارچی و خراسانی سرکار حضرت پیر سیف الرحمن کی ولادت با سعادت 1329ہجری میں کوٹ کے ایک گاوں جو بابا کلی کے نام سے مشہور ہے ( جو کہ جلال آباد کے جنوب کی طرف تقریبا بیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے) میں ہوئی۔آپ قدس سرہ کے والدین کریمین نے آپ کا اسم مبارک سیف الرحمن رکھا آپ کے والد بزرگوار کا نام جناب شیخ الاسلام حضرت علامہ قاری محمد سرفراز خان (رحمتہ اللہ علیہ) تھا جو افغانستان کے مشہور و معروف عالم دین اور قاری قرآن تھے جو نہایت ہی پرہیزگار متقی اور نیک انسان تھے اور سلسلہ قادریہ شریف میں حضرت شیخ المشائخ حاجی حرمین شریفین عاشق رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حاجی محمد امین قادری (رحمتہ اللہ علیہ) کے مرید خاص تھے۔
ایک دن قبلہ حاجی صاحب کی آپ (پیر ارچی صاحب) کے گھر تشریف لائے تو آپ کے والد گرامی نے آپ کو ان کے سامنے پیش کر دیا تو حاجی صاحب نے آپ کو اپنا لعاب دہن عطا فرمایا اور چند دانے کشمش کے بھی عطا فرمائے
آپ قدس سرہ نے ابتدائی تعلیم اپنی والد گرامی سے شروع فرمائی اور قرآن پاک کی بنیادی سورتیں اپنے والد گرامی سے حفظ کیں اور ناظرہ قرآن پاک بھی اپنے والد گرامی سے مکمل یاد کیا۔ جب آپ قدس سرہ کی عمر تقریبا ٨ یا ١٠ برس کی تھی تو آپ کی والدہ ماجدہ انتقال فرما گئیں۔ (انا للہ و انا لیہ راجعون)۔ حصول علم دین کے لئے آپ نے افغانستان اور پاکستان کے صوبہ سرحد و پشاور کے علاوہ ہندوستان کا رخ کیا۔ جس طرح حدیث پاک میں ہے کہ صحابہ کرام( رضوان اللہ علیہم اجمعین) نے علوم دین کو حاصل کرنے کے لئے دور دراز کا سفر کیا۔ اسی چیز کو مد نظر رکھتے ہوے آپ قدس سرہ نے علوم ظاہریہ اور علوم باطنیہ سے بھرپور اور مکمل استفادہ کیا۔
افغانستان کے مشہور استاذ اور پیر اساتذہ شیخ المشاٰئخ جامع معقول ومنقول حضرت مولانا شاہ رسول طالقانی اور افغانستان کے مشہور صوفی با صفا و عالم دین محبوب سبحانی عالم ربانی حضرت مولانا محمد ہاشم سمنگانئ ان دنوں عظیم عارفین سے آپ قدس سرہ نے علمی ادبی اور روحانئ استفادہ کیا اور علوم باطنیہ میں مکمل دسترس حاصل کی جن علماء کرام سے آپ علوم ظاہریہ وعلوم نقلیہ کے تمام علوم مثلا ترجمہ قرآن پاک و تفسیر علم صرف و نحو علم فقہ واصول فقہ علم معانی و بیان علم ریاضی و تاریخ علم حکمت وفلسفہ علم منطق و عقائد علم تفسیر و اصول تفسیر علم حدیث میں استفادہ اور مکمل دسترس حاصل کی ۔ ان عظیم علماء کرام کے نام درج ذیل ہیں۔
شیخ العلماء حضرت مولانا محمد آدم خان صاحب آمازو گڑھی،شیخ القرآن محمد اسلام بابا صاحب بابا کلی کوٹ استاذ العلماء حضرت علامہ محمد ولید صاحب المشہور وزیر ملا صاحب کوٹ حیدر خیل،سند العلماء حضرت علامہ مولوی محمد اسلم صاحب کوٹ حیدر خیل،شمس العلماء حضرت مولانا محمد حسین صاحب مترانی گاؤں کا،شیخ الحدیث مولانا محمد ففیر صاحب سرہ غنڈے فرید کلاجات شیخ الادب،مولانا عبدالباسط صاحب آپ قدس سرہ کے بڑے بھائی ہیں ان سے فارسی ادب کی کتابیں پڑھیں شیخ الحدیث و تفسیر حضرت مولانا سید عبداللہ شاہ صاحب۔ یہ آپ قدس سرہ کے عظیم استاذہ کرام کے اسم گرامی ہیں ان حضرات سے آپ نےمکمل علمی ادبی تحقیقی استفاذہ کیا۔
جس وقت آپ قدس سرہ افغانستان کے علاقے دشت ارچی میں علوم ظاہریہ مکمل حاصل کرنے کے بعد تشریف لے کر آئے تو دشت ارچی جو بے آباد اور غیر شاداب تھی جس کے بارے میں یہ بات مشہور و معروف تھی کہ یہ دشت ارچی کی زمین کبھی آباد نہیں ہوسکتی۔
جب آپ قدس سرہ کا وجود مبارک دشت ارچی کو میسر آیا تو یہ غیر آباد زمین اور غیر شاداب زمین دنوں میں آباد اور شاداب ہونے لگی اور جس دشت ارچی کی زمین میں لوگ آنا پسند نہیں کرتے تھے وہ جوق درجوق ارچی میں آباد ہونے لگے۔آپ قدس سرہ نے دشت ارچی میں آتے ہی سب پہلے اللہ تعالٰی کا ایک خوبصورت گھر(یعنی مسجد) کی تعمیر فرمائی اور وہاں بغیر اجرت کے امامت و خطابت شروع فرمادی اور ساتھہ ساتھہ درس نظامی کے اسباق کا اجراء بھی کردیا جس میں ابتدائی کتب سے لے کر آخر تک آپ قدس سرہ خود درس و تدریس کی تعلیم دیتے تھے اور ساتھہ ساتھہ دشت ارچی کی زمینوں میں کھیتی باڑی کا سلسلہ بھی جاری رکھا تا کہ ذریعہ معاش کی کوئی پرشانی نہ آئے۔
اس علاقے میں کسی نے شیخ المشائخ مولانا شاہ رسول طالقانی رحمتہ اللہ علیہ کو دعوت دی تو لوگ ان کی زیارت کے لئے جا رہے تھے تو آپ کو ان سے ملا قات کا شرف حاصل ہوا۔ شیخ المشائخ مولانا شاہ رسول طالقانی اپنے دور کے قطب ارشاد اور مرجع عوام و خواص تھے مولانا شاہ رسول طالقانی کا علمی و روحانی مقام تاریخ اولیاء میں دیکھا جا سکتا ھے جو افغانستان کے نامور عالم دین محقق عصر حضرت علامہ علی محمد بلخی کی تالیف ھے چناچہ آپ قدس سرہ نےجب قبلہ شاہ صاحب کی مجالس میں جب ذکر اذکار کی مجالس کو دیکھا تو بڑے متاثر ہوئے اور ان کی طرف مائل ہوگئے اور سلوک کی طرف شوق زیادہ ہوگیا قبلہ شاہ صاحب اپنے مریدوں کے پاس تشریف لاتے تو آپ قدس سرہ قبلہ شاہ صاحب کی صحبت میں ضرور حاضر ہوتے اور قبلہ شاہ صاحب بھی آپ پر خصوصی شفقت فرماتے۔اور معرفت الٰہی کی ترغیب دیتے رہتے۔
کیونکہ ولی کامل کی نگاہ نے دیکھہ لیا تھا کہ آپ قدس کی پشانی سے رب کریم کی انوار و تجلیات نمایاں آثار نظر آتے تھے۔ ولی کامل جانتا تھا کہ آپ قدس سرہ حضرت شاہ صاحب کی صحبت سے جب فیض یاب ہوئے تو قبلہ شاہ صاحب کی بزرگی آپ قدس سرہ کے دل میں راسخ ہوگئی اور ان کی روحانیت سے انس پیدا ہوگیا توقبلہ شاہ کے حضور بیعت و ذکر کی التماس کی تو قبلہ شاہ نے خصوصی شفقت فرمائی بیعت فرمایا اور ذکر دیا قبلہ شاہ صاحب کی پہلی عنایت و توجہ ذکر سے عالم امر کے پانچوں لطائف ذاکر ھو گئے اور آپ قدس سرہ روحانی منازل کے اعلٰی درجے پر فائز ھو گئے ۔ آپ قدس سرہ ذکرواذکار میں مشغول رھتے جو آپ کو قبلھ شاہ نے بتائے تھے ۔ آپ قدس کو ذکرواذکار سے بہت سکون اور روحانیت ملتی مگر آپ قدس سرہ کو قبلھ شاہ کی صحبت میں کچھ عرصھ ھی گزارا تھا تو مولانا شاہ رسول طالقانی وصال فرما گئے۔ آپ کو قبلھ شاہ کے وصال کی اطلاع ملی تو قبلھ شاہ کے غم میں نڈھال ھو گئےقبلھ شاہ صاحب نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں ہی فرما دیا تھا کہ میں بہت ضعیف العمر ہوں مجھے امید نہیں ھے کہ میں اس کے بعد ملاقات کر سکوں اس لئے تم پر لازم ھے کہ میرے بعد مولوی بزرگ حضرت مولانا محمد ھاشم سمنگانی کی صحبت کو لازم وملزوم جاننا اور میری ہی طرح مولانا محمد ھاشم سمنگانی پر اعتماد کرنا مولانا محمد ہاشم سمنگانی حضرت مولانا شاہ رسول طالقانی کے مقبول ترین اور ممتاز خلفاء میں سے تھے اور قبلہ شاہ صاحب کےخلفاء کرام میں آپ کا مقام سب سے بلند و اعلٰی تھا۔
یہاں پر آپ حضرات کو یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ محبوب سبحانی عالم ربانی حضرت مولانا محمد ہاشم سمنگانی کی ذات والا صفات مقام روحانیت میں کسی بھی تعارف کی محتاج نہیں۔آج بھی افغانستان کا بچہ بچہ آپ کی روحانیت کا واقف ہے۔ مولانا محمد باشم اتنے رطب اللسان تھے کہ پانچ گھنٹوں میں مکمل قرآن مجید کی تلاوت فرما لیتے جو آپ کے قرآن پاک کے والہانہ محبت اور عقیدت کا اظہار ہے رمضان المبارک میں قرآن مجید کی تلاوت سے شغف کا یہ عالم تھا کہ ایک ہزار مرتبہ قرآن پاک کی تلاوت فرمائی حضرت داؤد علیہ السلام کی طرح پانچ سال روزے رکھے۔(روزہ داؤدی یہ ہے کہ ایک دن روزہ اور ایک دن افطار سوائے رمضان کے) حضرت مولانا محمد ہاشم سمنگانی خود فرمایا کرتے زمانہ طالب علمی میں کبھی کبھی تگاب شریف شیخ المشاُخ مولانا سلطان محمد تگابی رحمتہ اللہ علیہ اپنے زمانہ کے صاحب خوادق اور صاحب کرامت بزرگ تھے) ایک مرتبہ خواب میں دیکھا کہ حضرت مولانا محمد تگابی کے تمام علوم و معارف مجھے عطا ھوئے بس یہ خواب کیا دیکھا کہ تمام علوم و فنعن کے دروازے مجھہ پر کھل گئے پھر یہ حال تھا کہ جو کتاب ایک دفعہ مطالعہ میں آجاتی اس کو سمجھہ کر اس کے حقائق تک پہنچ جاتا۔حضرت علامہ آخوندازہ پیر ارچی وخراسانی قبلہ مولانا شاہ رسول طالقانی کی صحبت میں رہ کر روحانیت کا ذائقہ چکھہ چکے تھے اب دوبارہ اسی لذت کو حاصل کرنے کےلیے کوشاں تھے۔کافی معلومات کے بعداسی شیخ کامل و مکمل کے نامور خلیفہ محبوب سبحانی عالم ربانی کا پتہ معلوم کیا اور پھران سے ملاقات کی تو آپ قدس سرہ نے اپنے تمام واقعات ان کی خدمت میں پیش کیے تو مولانا محمد ہاشم سمنگانی نے دوبارہ پیر ارچی و خراسانی کو ذکر دیا اور بیعت فرمایا۔ آپ قدس سرہ نے مولانا ہاشم سمنگانی سے خوب روحانی فیض حاصل کیا اور ساری زندگی آپ کی خدمت میں گزار دی۔
حضرت مولانا سمنگانی کی رہائش کے لئے آپ قدس سرہ نے جگہ خریدی اور معرفت لٰہی کی اشاعت کے لئے خانقاہ شریف بنائی اور پھر لوگ فوج در فوج طریقہ عالیہ نقشبندیہ میں داخل ہونے لگے۔ ١٣٨٧ء ہجری میں مولانا ہاشم صاحب بیمار ہوگئے اور آپ کے بیماری نے طوالت پکڑی اور مولانا ہاشم صاحب نے حضرت اخند زادا پیر سیف الرحمٰن پیر ارچی و خراسانی کو توجہ میں معاونت کےلئے اپنے پاس بلایا اس میں حضرت مولانا محمد صاحب کی یہ حکمت عملی تھی کہ اخندزاد کی تربیت بھی ہوجائے اور آپکی فضیلت تمام خلفاء پر ظاہر ہو جائے اور جب مولانا محمد ہاشم سمنگانی رحمتہ اللہ علیہ نے دیکھا آخوندادہ صاحب بڑے ہی ذوق و شوق صبر وتحمل کی ساتھہ شہروں اور قصبوں سے آنے والے مریدوں کی خوب تربیت فرما رہے ہیں تو پھر مولانا محمد ہاشم سمنگانی نے آخوندادہ صاحب کو مطلق خلافت عطا فرمائی(اس سےپھلے آپ قدس سرہ مقید خلیفہ تھے)
شیح کامل کے اپنے مرید صادق کے بارے میں ارشادات مولانا محمد ہاشم سمنگانی نے فرمایا اس وقت میرے خلفاء میں ین جیسا کوئی نیں اسلئے میں ان کو مطلق خلافت کی اجازت دیتا ہوں اور پیر ارچی آسمان میں نصف النہار سورج کی طرح ہیں پس ان کا مقبول میرا مقبول ہے اور ان کا مردود میرا مردود ہیں۔
آپ قدس سرہ کی بارے میں شیخ المشائخ حضرت مولانا محمد ہاشم سمنگانی نے اپنے تمام مریدین اور خلفاء کو وصیت فرمائی کہ وہ میرے بعد اخندزادہ سیف الرحمٰن کی صحبت کی محمدی المشرب لازم پکڑیں اور (یہ ارشادات مطلق عطا کرتے وقت ارشاد خط میں فرمائیں جو عربی میں ہیں) حضرت مولانا عبداللہ افغانی فرماتے ہیں کہ میں نے خواب دیکھا کہ ایک بڑے سائز کا قرآن پاک جو کہ تاج کمپنی کی مطبوع کی مثل ہے اور بہت خوبصورت ہے مجھے دیا گیا ہے کہ یہ امانت جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے دی ہے اخندزادہ سیف الرحمٰن کو پہنچائی جائےجب یہ خواب حضرت مولانا محمد ہاشم سمنگانی کی خدمت عالیہ میں بیان ہوا تو آپ نے اس کی تعبیر فرماتے ہوئے میری طرف اشارہ فرمایا اور عربی میں فرمایا۔ ءانت اویسی و محمدی المشرب یعنی اخندزادہ سیف الرحمٰن اویسی اور محمدی المشرب ہیں۔
آپ اخندزادہ مبارک فرماتے ہیں کی میں حضرت مولانا محمد ہا شم سمنگانی کی ساتھہ دشت ارچی میںکہ آپ کی پیر و مرشد نے یہ حدیث شریف پڑھی۔ حب الوطن من الایمان یعنی وطن کی محبت ایمان میں سے ہے اور فارسی میں یہ شعر پڑھا،
تو مکانی اصل تو در لامکاں این دوکان
بہر بندہ و بکشاں آں دوکان
مولانا محمد ہاشم صاحب نے اس حدیث کی تاویل اس طرح فرمائی کہ صحبت وطن سے مراد اصل روح ہے (اصل روح سے مراد وہ مقام ہے جہاں روح جسد عنصری میں پھونکنے سے پہلے تھی) علاوہ ازیں اس وقت آپ(اخندزادہ مبارک)اس وقت مراقبہ فرمایا کرتے تھے پس آپ قدس سرہ نے فرمایا مجھے کشف بوا کہ اس محبوب وطن سے مراد وہ وطن ہے جس وطن میں دیدار اللہ تبارک و تعالٰی بوتا بے اور مراد اس سے جنت بے چناچہ جب میں نے یہ بیان کیا تو انھوں (مولانا باشم صاحب) نے مجھے ڈانٹا اور اس ڈانٹنے میں یہ حکمت عملی تھی کہ میری تربیت صحیح ہو کیونکہ میں نے حدیث شریف کی تاویل مولانا باشم صاحب کی تاویل کے خلاف کی تھی (یعنی میری تاویل مولانا ہاشم صاحب کی تاویل کے الٹ تھی) اس کے بعد آپ (مولانا صاحب) نے فرمایا کہ بے شک اولیاء اللہ کے لئے کوئی غرض و حاجت نہیں سوائے اللہ تعالٰی کی رضا کے اور ان کو جنت اور دوزخ کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی اس پر مولانا محمد باشم سمنگانی صاحب نے علماء کی جماعت سے فرمایا بے شک لوگوں کے تین قسم کے مراتب میں عوام، خواص اور اخص الخواص ہیں پس عوام جنت کی آرزو اور خوابش رکھتے بیں اس لئے کے وہ عیش و عشرت اور راحت کی جگہ ہے اور جو خواص ہیں وہ اللہ تبارک و تعالٰٰی کے ذکر میں متفرق ہیں اور وہ جنت اور دوزخ کی پرواہ نہیں کرتے اور اخص الخواص کی طلب جنت ہے کیونکہ وہاں اللہ تعالٰی کی رضا اور دیدار کی جگہ ہے اور دوزخ سے پناہ مانگتے ہیں کیونکہ دوزخ اللہ تعالٰی کے غضب اور دیدار الہی سے محروم ہونے کی جگہ ہے۔ پس جو میں نے تاویل کی ہے وہ خواص کا مقام تھا اور جو (اخند زادہ صاحب) نے بیان کیا وہ اخص الخواص کا مقام تھا۔
اور پھر حضرت اخندزادہ پیر سیف الرحٰٰٰٰمن پیر ارچی و خراسانی اپنے مرشد گرامی شیخ المشائخ حضرت مولانا محمد ہاشم سمنگانی کے حکم پر طالبان حق کو معرفت الہی کے جام پلانے لگے اور جوق در جوق قطار در قطار طالبان حق معرفت الہی اور عشق رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متلاشی آپ کے حلقہ ارادت میں داخل بونے لگے اور آپ کی روحانیت سے فیض حاصل کرنے لگے۔ اور ان دنوں دشت ارچی کی زمین جو آباد نہیں ہوتی تھی وہ پورے افغانستان کے لئے روحانیت کا مرکز بن گئی۔ مثلا پورا افغانستان قندوز، کابل، جلال آباد، ننگرہار، نعمان خوست، مزار شریف اور قندہار میں آپ کی عظمت و شوکت کا چرچا ہونے لگا اور افغانستان کے علاوہ ان دنوں میں پاکستان کے طول و عرض میں شہرت ہونے لگی۔ یہی وجہ ہے کہ صوبہ سرحد ضلع صوابی کے ایک مشہور و معروف علم دین شیخ القرآن حضرت علامہ مولانہ حمد اللہ ڈاگئی صاحب نے آپ کی شہرت سن کر اس زمانہ دشت ارچی میں حاضر ہو کر ذکر و بیعت کی سعادت حاصل کی۔
مجدد دوراں ، قیوم زماں ، حضرت اخوندزادہ ، پیر سیف الرحمٰن مبارک (رحمتہ اللہ علیہ) نے آستانہ عالیہ فقیر آباد ( لکھو ڈیرہ) لاہور میں، مورخہ 27 جون 2010 بروز اتوار بقضائے الٰہی انتقال فرمایا ،اِنا لِلہ واِنا لیہِ راجعون۔ اللہ تعالی اپنی اس محبوب ہستی کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور انکے درجات بلند فرمائے۔ اور جو گلشن انہوں نے ذکر الہی اور ذکر رسول علیہ الصلوۃ والسلام کا سجایہ وہ قیامت تک شاد رہے۔ آمین۔
تحریر: آصف السیفی بلاگ
اسم گرامی سیف الرحمان لقب آخوندزادہ، مشہور القابات پیر ارچی و خراسانی سرکار حضرت پیر سیف الرحمن کی ولادت با سعادت 1329ہجری میں کوٹ کے ایک گاوں جو بابا کلی کے نام سے مشہور ہے ( جو کہ جلال آباد کے جنوب کی طرف تقریبا بیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے) میں ہوئی۔آپ قدس سرہ کے والدین کریمین نے آپ کا اسم مبارک سیف الرحمن رکھا آپ کے والد بزرگوار کا نام جناب شیخ الاسلام حضرت علامہ قاری محمد سرفراز خان (رحمتہ اللہ علیہ) تھا جو افغانستان کے مشہور و معروف عالم دین اور قاری قرآن تھے جو نہایت ہی پرہیزگار متقی اور نیک انسان تھے اور سلسلہ قادریہ شریف میں حضرت شیخ المشائخ حاجی حرمین شریفین عاشق رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حاجی محمد امین قادری (رحمتہ اللہ علیہ) کے مرید خاص تھے۔
ایک دن قبلہ حاجی صاحب کی آپ (پیر ارچی صاحب) کے گھر تشریف لائے تو آپ کے والد گرامی نے آپ کو ان کے سامنے پیش کر دیا تو حاجی صاحب نے آپ کو اپنا لعاب دہن عطا فرمایا اور چند دانے کشمش کے بھی عطا فرمائے
آپ قدس سرہ نے ابتدائی تعلیم اپنی والد گرامی سے شروع فرمائی اور قرآن پاک کی بنیادی سورتیں اپنے والد گرامی سے حفظ کیں اور ناظرہ قرآن پاک بھی اپنے والد گرامی سے مکمل یاد کیا۔ جب آپ قدس سرہ کی عمر تقریبا ٨ یا ١٠ برس کی تھی تو آپ کی والدہ ماجدہ انتقال فرما گئیں۔ (انا للہ و انا لیہ راجعون)۔ حصول علم دین کے لئے آپ نے افغانستان اور پاکستان کے صوبہ سرحد و پشاور کے علاوہ ہندوستان کا رخ کیا۔ جس طرح حدیث پاک میں ہے کہ صحابہ کرام( رضوان اللہ علیہم اجمعین) نے علوم دین کو حاصل کرنے کے لئے دور دراز کا سفر کیا۔ اسی چیز کو مد نظر رکھتے ہوے آپ قدس سرہ نے علوم ظاہریہ اور علوم باطنیہ سے بھرپور اور مکمل استفادہ کیا۔
افغانستان کے مشہور استاذ اور پیر اساتذہ شیخ المشاٰئخ جامع معقول ومنقول حضرت مولانا شاہ رسول طالقانی اور افغانستان کے مشہور صوفی با صفا و عالم دین محبوب سبحانی عالم ربانی حضرت مولانا محمد ہاشم سمنگانئ ان دنوں عظیم عارفین سے آپ قدس سرہ نے علمی ادبی اور روحانئ استفادہ کیا اور علوم باطنیہ میں مکمل دسترس حاصل کی جن علماء کرام سے آپ علوم ظاہریہ وعلوم نقلیہ کے تمام علوم مثلا ترجمہ قرآن پاک و تفسیر علم صرف و نحو علم فقہ واصول فقہ علم معانی و بیان علم ریاضی و تاریخ علم حکمت وفلسفہ علم منطق و عقائد علم تفسیر و اصول تفسیر علم حدیث میں استفادہ اور مکمل دسترس حاصل کی ۔ ان عظیم علماء کرام کے نام درج ذیل ہیں۔
شیخ العلماء حضرت مولانا محمد آدم خان صاحب آمازو گڑھی،شیخ القرآن محمد اسلام بابا صاحب بابا کلی کوٹ استاذ العلماء حضرت علامہ محمد ولید صاحب المشہور وزیر ملا صاحب کوٹ حیدر خیل،سند العلماء حضرت علامہ مولوی محمد اسلم صاحب کوٹ حیدر خیل،شمس العلماء حضرت مولانا محمد حسین صاحب مترانی گاؤں کا،شیخ الحدیث مولانا محمد ففیر صاحب سرہ غنڈے فرید کلاجات شیخ الادب،مولانا عبدالباسط صاحب آپ قدس سرہ کے بڑے بھائی ہیں ان سے فارسی ادب کی کتابیں پڑھیں شیخ الحدیث و تفسیر حضرت مولانا سید عبداللہ شاہ صاحب۔ یہ آپ قدس سرہ کے عظیم استاذہ کرام کے اسم گرامی ہیں ان حضرات سے آپ نےمکمل علمی ادبی تحقیقی استفاذہ کیا۔
جس وقت آپ قدس سرہ افغانستان کے علاقے دشت ارچی میں علوم ظاہریہ مکمل حاصل کرنے کے بعد تشریف لے کر آئے تو دشت ارچی جو بے آباد اور غیر شاداب تھی جس کے بارے میں یہ بات مشہور و معروف تھی کہ یہ دشت ارچی کی زمین کبھی آباد نہیں ہوسکتی۔
جب آپ قدس سرہ کا وجود مبارک دشت ارچی کو میسر آیا تو یہ غیر آباد زمین اور غیر شاداب زمین دنوں میں آباد اور شاداب ہونے لگی اور جس دشت ارچی کی زمین میں لوگ آنا پسند نہیں کرتے تھے وہ جوق درجوق ارچی میں آباد ہونے لگے۔آپ قدس سرہ نے دشت ارچی میں آتے ہی سب پہلے اللہ تعالٰی کا ایک خوبصورت گھر(یعنی مسجد) کی تعمیر فرمائی اور وہاں بغیر اجرت کے امامت و خطابت شروع فرمادی اور ساتھہ ساتھہ درس نظامی کے اسباق کا اجراء بھی کردیا جس میں ابتدائی کتب سے لے کر آخر تک آپ قدس سرہ خود درس و تدریس کی تعلیم دیتے تھے اور ساتھہ ساتھہ دشت ارچی کی زمینوں میں کھیتی باڑی کا سلسلہ بھی جاری رکھا تا کہ ذریعہ معاش کی کوئی پرشانی نہ آئے۔
اس علاقے میں کسی نے شیخ المشائخ مولانا شاہ رسول طالقانی رحمتہ اللہ علیہ کو دعوت دی تو لوگ ان کی زیارت کے لئے جا رہے تھے تو آپ کو ان سے ملا قات کا شرف حاصل ہوا۔ شیخ المشائخ مولانا شاہ رسول طالقانی اپنے دور کے قطب ارشاد اور مرجع عوام و خواص تھے مولانا شاہ رسول طالقانی کا علمی و روحانی مقام تاریخ اولیاء میں دیکھا جا سکتا ھے جو افغانستان کے نامور عالم دین محقق عصر حضرت علامہ علی محمد بلخی کی تالیف ھے چناچہ آپ قدس سرہ نےجب قبلہ شاہ صاحب کی مجالس میں جب ذکر اذکار کی مجالس کو دیکھا تو بڑے متاثر ہوئے اور ان کی طرف مائل ہوگئے اور سلوک کی طرف شوق زیادہ ہوگیا قبلہ شاہ صاحب اپنے مریدوں کے پاس تشریف لاتے تو آپ قدس سرہ قبلہ شاہ صاحب کی صحبت میں ضرور حاضر ہوتے اور قبلہ شاہ صاحب بھی آپ پر خصوصی شفقت فرماتے۔اور معرفت الٰہی کی ترغیب دیتے رہتے۔
کیونکہ ولی کامل کی نگاہ نے دیکھہ لیا تھا کہ آپ قدس کی پشانی سے رب کریم کی انوار و تجلیات نمایاں آثار نظر آتے تھے۔ ولی کامل جانتا تھا کہ آپ قدس سرہ حضرت شاہ صاحب کی صحبت سے جب فیض یاب ہوئے تو قبلہ شاہ صاحب کی بزرگی آپ قدس سرہ کے دل میں راسخ ہوگئی اور ان کی روحانیت سے انس پیدا ہوگیا توقبلہ شاہ کے حضور بیعت و ذکر کی التماس کی تو قبلہ شاہ نے خصوصی شفقت فرمائی بیعت فرمایا اور ذکر دیا قبلہ شاہ صاحب کی پہلی عنایت و توجہ ذکر سے عالم امر کے پانچوں لطائف ذاکر ھو گئے اور آپ قدس سرہ روحانی منازل کے اعلٰی درجے پر فائز ھو گئے ۔ آپ قدس سرہ ذکرواذکار میں مشغول رھتے جو آپ کو قبلھ شاہ نے بتائے تھے ۔ آپ قدس کو ذکرواذکار سے بہت سکون اور روحانیت ملتی مگر آپ قدس سرہ کو قبلھ شاہ کی صحبت میں کچھ عرصھ ھی گزارا تھا تو مولانا شاہ رسول طالقانی وصال فرما گئے۔ آپ کو قبلھ شاہ کے وصال کی اطلاع ملی تو قبلھ شاہ کے غم میں نڈھال ھو گئےقبلھ شاہ صاحب نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں ہی فرما دیا تھا کہ میں بہت ضعیف العمر ہوں مجھے امید نہیں ھے کہ میں اس کے بعد ملاقات کر سکوں اس لئے تم پر لازم ھے کہ میرے بعد مولوی بزرگ حضرت مولانا محمد ھاشم سمنگانی کی صحبت کو لازم وملزوم جاننا اور میری ہی طرح مولانا محمد ھاشم سمنگانی پر اعتماد کرنا مولانا محمد ہاشم سمنگانی حضرت مولانا شاہ رسول طالقانی کے مقبول ترین اور ممتاز خلفاء میں سے تھے اور قبلہ شاہ صاحب کےخلفاء کرام میں آپ کا مقام سب سے بلند و اعلٰی تھا۔
یہاں پر آپ حضرات کو یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ محبوب سبحانی عالم ربانی حضرت مولانا محمد ہاشم سمنگانی کی ذات والا صفات مقام روحانیت میں کسی بھی تعارف کی محتاج نہیں۔آج بھی افغانستان کا بچہ بچہ آپ کی روحانیت کا واقف ہے۔ مولانا محمد باشم اتنے رطب اللسان تھے کہ پانچ گھنٹوں میں مکمل قرآن مجید کی تلاوت فرما لیتے جو آپ کے قرآن پاک کے والہانہ محبت اور عقیدت کا اظہار ہے رمضان المبارک میں قرآن مجید کی تلاوت سے شغف کا یہ عالم تھا کہ ایک ہزار مرتبہ قرآن پاک کی تلاوت فرمائی حضرت داؤد علیہ السلام کی طرح پانچ سال روزے رکھے۔(روزہ داؤدی یہ ہے کہ ایک دن روزہ اور ایک دن افطار سوائے رمضان کے) حضرت مولانا محمد ہاشم سمنگانی خود فرمایا کرتے زمانہ طالب علمی میں کبھی کبھی تگاب شریف شیخ المشاُخ مولانا سلطان محمد تگابی رحمتہ اللہ علیہ اپنے زمانہ کے صاحب خوادق اور صاحب کرامت بزرگ تھے) ایک مرتبہ خواب میں دیکھا کہ حضرت مولانا محمد تگابی کے تمام علوم و معارف مجھے عطا ھوئے بس یہ خواب کیا دیکھا کہ تمام علوم و فنعن کے دروازے مجھہ پر کھل گئے پھر یہ حال تھا کہ جو کتاب ایک دفعہ مطالعہ میں آجاتی اس کو سمجھہ کر اس کے حقائق تک پہنچ جاتا۔حضرت علامہ آخوندازہ پیر ارچی وخراسانی قبلہ مولانا شاہ رسول طالقانی کی صحبت میں رہ کر روحانیت کا ذائقہ چکھہ چکے تھے اب دوبارہ اسی لذت کو حاصل کرنے کےلیے کوشاں تھے۔کافی معلومات کے بعداسی شیخ کامل و مکمل کے نامور خلیفہ محبوب سبحانی عالم ربانی کا پتہ معلوم کیا اور پھران سے ملاقات کی تو آپ قدس سرہ نے اپنے تمام واقعات ان کی خدمت میں پیش کیے تو مولانا محمد ہاشم سمنگانی نے دوبارہ پیر ارچی و خراسانی کو ذکر دیا اور بیعت فرمایا۔ آپ قدس سرہ نے مولانا ہاشم سمنگانی سے خوب روحانی فیض حاصل کیا اور ساری زندگی آپ کی خدمت میں گزار دی۔
حضرت مولانا سمنگانی کی رہائش کے لئے آپ قدس سرہ نے جگہ خریدی اور معرفت لٰہی کی اشاعت کے لئے خانقاہ شریف بنائی اور پھر لوگ فوج در فوج طریقہ عالیہ نقشبندیہ میں داخل ہونے لگے۔ ١٣٨٧ء ہجری میں مولانا ہاشم صاحب بیمار ہوگئے اور آپ کے بیماری نے طوالت پکڑی اور مولانا ہاشم صاحب نے حضرت اخند زادا پیر سیف الرحمٰن پیر ارچی و خراسانی کو توجہ میں معاونت کےلئے اپنے پاس بلایا اس میں حضرت مولانا محمد صاحب کی یہ حکمت عملی تھی کہ اخندزاد کی تربیت بھی ہوجائے اور آپکی فضیلت تمام خلفاء پر ظاہر ہو جائے اور جب مولانا محمد ہاشم سمنگانی رحمتہ اللہ علیہ نے دیکھا آخوندادہ صاحب بڑے ہی ذوق و شوق صبر وتحمل کی ساتھہ شہروں اور قصبوں سے آنے والے مریدوں کی خوب تربیت فرما رہے ہیں تو پھر مولانا محمد ہاشم سمنگانی نے آخوندادہ صاحب کو مطلق خلافت عطا فرمائی(اس سےپھلے آپ قدس سرہ مقید خلیفہ تھے)
شیح کامل کے اپنے مرید صادق کے بارے میں ارشادات مولانا محمد ہاشم سمنگانی نے فرمایا اس وقت میرے خلفاء میں ین جیسا کوئی نیں اسلئے میں ان کو مطلق خلافت کی اجازت دیتا ہوں اور پیر ارچی آسمان میں نصف النہار سورج کی طرح ہیں پس ان کا مقبول میرا مقبول ہے اور ان کا مردود میرا مردود ہیں۔
آپ قدس سرہ کی بارے میں شیخ المشائخ حضرت مولانا محمد ہاشم سمنگانی نے اپنے تمام مریدین اور خلفاء کو وصیت فرمائی کہ وہ میرے بعد اخندزادہ سیف الرحمٰن کی صحبت کی محمدی المشرب لازم پکڑیں اور (یہ ارشادات مطلق عطا کرتے وقت ارشاد خط میں فرمائیں جو عربی میں ہیں) حضرت مولانا عبداللہ افغانی فرماتے ہیں کہ میں نے خواب دیکھا کہ ایک بڑے سائز کا قرآن پاک جو کہ تاج کمپنی کی مطبوع کی مثل ہے اور بہت خوبصورت ہے مجھے دیا گیا ہے کہ یہ امانت جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے دی ہے اخندزادہ سیف الرحمٰن کو پہنچائی جائےجب یہ خواب حضرت مولانا محمد ہاشم سمنگانی کی خدمت عالیہ میں بیان ہوا تو آپ نے اس کی تعبیر فرماتے ہوئے میری طرف اشارہ فرمایا اور عربی میں فرمایا۔ ءانت اویسی و محمدی المشرب یعنی اخندزادہ سیف الرحمٰن اویسی اور محمدی المشرب ہیں۔
آپ اخندزادہ مبارک فرماتے ہیں کی میں حضرت مولانا محمد ہا شم سمنگانی کی ساتھہ دشت ارچی میںکہ آپ کی پیر و مرشد نے یہ حدیث شریف پڑھی۔ حب الوطن من الایمان یعنی وطن کی محبت ایمان میں سے ہے اور فارسی میں یہ شعر پڑھا،
تو مکانی اصل تو در لامکاں این دوکان
بہر بندہ و بکشاں آں دوکان
بہر بندہ و بکشاں آں دوکان
مولانا محمد ہاشم صاحب نے اس حدیث کی تاویل اس طرح فرمائی کہ صحبت وطن سے مراد اصل روح ہے (اصل روح سے مراد وہ مقام ہے جہاں روح جسد عنصری میں پھونکنے سے پہلے تھی) علاوہ ازیں اس وقت آپ(اخندزادہ مبارک)اس وقت مراقبہ فرمایا کرتے تھے پس آپ قدس سرہ نے فرمایا مجھے کشف بوا کہ اس محبوب وطن سے مراد وہ وطن ہے جس وطن میں دیدار اللہ تبارک و تعالٰی بوتا بے اور مراد اس سے جنت بے چناچہ جب میں نے یہ بیان کیا تو انھوں (مولانا باشم صاحب) نے مجھے ڈانٹا اور اس ڈانٹنے میں یہ حکمت عملی تھی کہ میری تربیت صحیح ہو کیونکہ میں نے حدیث شریف کی تاویل مولانا باشم صاحب کی تاویل کے خلاف کی تھی (یعنی میری تاویل مولانا ہاشم صاحب کی تاویل کے الٹ تھی) اس کے بعد آپ (مولانا صاحب) نے فرمایا کہ بے شک اولیاء اللہ کے لئے کوئی غرض و حاجت نہیں سوائے اللہ تعالٰی کی رضا کے اور ان کو جنت اور دوزخ کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی اس پر مولانا محمد باشم سمنگانی صاحب نے علماء کی جماعت سے فرمایا بے شک لوگوں کے تین قسم کے مراتب میں عوام، خواص اور اخص الخواص ہیں پس عوام جنت کی آرزو اور خوابش رکھتے بیں اس لئے کے وہ عیش و عشرت اور راحت کی جگہ ہے اور جو خواص ہیں وہ اللہ تبارک و تعالٰٰی کے ذکر میں متفرق ہیں اور وہ جنت اور دوزخ کی پرواہ نہیں کرتے اور اخص الخواص کی طلب جنت ہے کیونکہ وہاں اللہ تعالٰی کی رضا اور دیدار کی جگہ ہے اور دوزخ سے پناہ مانگتے ہیں کیونکہ دوزخ اللہ تعالٰی کے غضب اور دیدار الہی سے محروم ہونے کی جگہ ہے۔ پس جو میں نے تاویل کی ہے وہ خواص کا مقام تھا اور جو (اخند زادہ صاحب) نے بیان کیا وہ اخص الخواص کا مقام تھا۔
اور پھر حضرت اخندزادہ پیر سیف الرحٰٰٰٰمن پیر ارچی و خراسانی اپنے مرشد گرامی شیخ المشائخ حضرت مولانا محمد ہاشم سمنگانی کے حکم پر طالبان حق کو معرفت الہی کے جام پلانے لگے اور جوق در جوق قطار در قطار طالبان حق معرفت الہی اور عشق رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متلاشی آپ کے حلقہ ارادت میں داخل بونے لگے اور آپ کی روحانیت سے فیض حاصل کرنے لگے۔ اور ان دنوں دشت ارچی کی زمین جو آباد نہیں ہوتی تھی وہ پورے افغانستان کے لئے روحانیت کا مرکز بن گئی۔ مثلا پورا افغانستان قندوز، کابل، جلال آباد، ننگرہار، نعمان خوست، مزار شریف اور قندہار میں آپ کی عظمت و شوکت کا چرچا ہونے لگا اور افغانستان کے علاوہ ان دنوں میں پاکستان کے طول و عرض میں شہرت ہونے لگی۔ یہی وجہ ہے کہ صوبہ سرحد ضلع صوابی کے ایک مشہور و معروف علم دین شیخ القرآن حضرت علامہ مولانہ حمد اللہ ڈاگئی صاحب نے آپ کی شہرت سن کر اس زمانہ دشت ارچی میں حاضر ہو کر ذکر و بیعت کی سعادت حاصل کی۔
مجدد دوراں ، قیوم زماں ، حضرت اخوندزادہ ، پیر سیف الرحمٰن مبارک (رحمتہ اللہ علیہ) نے آستانہ عالیہ فقیر آباد ( لکھو ڈیرہ) لاہور میں، مورخہ 27 جون 2010 بروز اتوار بقضائے الٰہی انتقال فرمایا ،اِنا لِلہ واِنا لیہِ راجعون۔ اللہ تعالی اپنی اس محبوب ہستی کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور انکے درجات بلند فرمائے۔ اور جو گلشن انہوں نے ذکر الہی اور ذکر رسول علیہ الصلوۃ والسلام کا سجایہ وہ قیامت تک شاد رہے۔ آمین۔
تحریر: آصف السیفی بلاگ
Subscribe to:
Posts (Atom)